Wednesday, December 11, 2013

[Pindi-Islamabad:94441]


بچپن میں آپس میں کھیلتے کھیلتے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر کو ''میرے غلام'' کہہ کر مخاطب کیا' حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی قریش مکہ' معزز ترین باپ اور امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب کے صاحب زادے تھے' ان کو یہ بات حددرجہ ناگوار ہوئی' فوراً اپنے گھر آئے اور بہت ناگواری کے انداز میں اپنے والد ماجد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے جو اس وقت خلیفہ اور امیرالمومنین تھے یہ بات بیان کی کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غلام کہہ کر پکارا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرط عقیدت، عظمت اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بے تاب ہوگئے اوراپنے لاڈلے بیٹے سے فرمایا میرے بیٹے جاؤ' کاغذ قلم لے کر جاؤ' میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے سے لکھوا کر دستخط کروا لاؤ اگر حسین رضی اللہ عنہ تمہیں لکھ کر دے دیتے ہیں تو تمہاری اور ہماری سب کی نجات کا وسیلہ مل جائے گا اگر حسین رضی اللہ عنہ مجھے اپنا غلام کہتے تو میں ان کے پاؤں پڑجاتا اور ان سے لکھوا کر لے لیتا' تو ہمارے لیے آخرت میں پیش کرنے کیلئے ایک سند بن جاتی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت میں یہ اس شخص کا حال ہے کہ آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد دنیا کے شہنشاہوں کے کلیجے عمرفاروق اور فاروق اعظم کا نام سن کر رعب اور دبدبہ سے دہل جاتے ہیں نوعمر نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اے غلام کہنا وہ اپنے لیے کتنا بڑا وقار سمجھتے ہیں' اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی حمیت اور ان کو اسلامی قدروں سے والہانہ طور پر مربوط رکھنے کا سب سے بڑی طاقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ سے ادنیٰ درجہ کی نسبت رکھنے والی ہر چیز کی عظمت اور محبت تھی' خصوصاً خیرالقرون میں صحابہ کرام کہ وہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی غلامی کو اپنے لیے دارین کا افتخار و اعزاز سمجھتے تھے'
Regards
Malik

I am just a mail away, not a mile away!

if my emails are irritating you and you are not interesting to get - plz reply with "unsubscribe" .

No comments:

Post a Comment

PAID CONTENT