Sunday, December 22, 2013

[Pindi-Islamabad:94539] Fw: بنگلہ دیش’ :42 برس بعد پھر ایک سانحہ

 
 
Sent: 23 12, 2013 12:48 AM
To: undisclosed-recipients:
Subject: بنگلہ دیش' :42 برس بعد پھر ایک سانحہ
 

تاریخ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔ تقدیر کا لکھا کوئی نہیں مٹا سکتا۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ اپنے ماتھے پر کلنک کا جو داغ لگا بیٹھی اسے شاید وہ کبھی نہ مٹاسکے۔ عبدالقادر مُلاّ حق کی خاطر سولی چڑھ گئے لیکن:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا
حسینہ واجد نے اقتدار کی ہوس میں ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مگر یوم سقوط ڈھاکا سے چند روز پہلے ایک پانچ فٹ کے بنگالی نے بیالیس برس بعد دنیا کو یہ بتادیا کہ نظریہ پاکستان آج بھی زندہ ہے۔
12دسمبر
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل عبدالقادر مُلاّ کو پاکستان توڑنے کی مخالفت کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ متنازع ٹریبونل کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کرنے والی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے سزا کے خلاف نظرثانی کی اپیل مسترد کردی۔ عبدالقادر مُلاّ نے صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔ مغرب کے وقت6 بج کر 15 منٹ پر اہلیہ، بیٹے، بہو اور خاندان کے دیگر 10 افراد کی ان سے ملاقات کرائی گئی۔ رات 10 بج کر ایک منٹ پر یعنی اپیل مستر ہونے کے صرف 6گھنٹے بعد انتہائی عجلت میں انہیں سینٹرل جیل ڈھاکا میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ عبدالقادر مُلاّ خود چل کر پھانسی گھاٹ تک گئے اور اپنے ہاتھوں سے پھندا اپنے گلے میں ڈالا۔ جلاد شاہ جہاں نے انہیں پھانسی دی۔ قائم مقام امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اسے ''عدالتی اور سیاسی قتل'' قرار دیا اورکہا کہ حکومت کو عبدالقادر مُلاّ کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا۔ بنگلہ دیش کے نائب وزیر قانون قمرالاسلام نے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عبدالقادر مُلاّ کی پھانسی کو یوم آزادی کا بہترین تحفہ قرار دیا۔ اے ایف پی سے انٹرویو میں قمرالاسلام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ چار دہائیوں کے بعد آخر وہ تاریخی لمحہ آگیا جس میں 1971ء کی جنگ آزادی کی مخالفت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جارہا ہے۔ عبدالقادر مُلاّ کی شہادت کے بعد دارالحکومت ڈھاکا میں ہو کا عالم تھا۔ نیم فوجی دستے اور ریپڈ ایکشن بٹالین کے اہلکار دندناتے پھر رہے تھے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی کی خبر پھیلتے ہی سخت ترین سیکورٹی کے باوجود بنگلہ دیش بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ چٹاگانگ، کھلنا اور کومیلا میں مظاہرین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ 15مظاہرین شہید کردیے گئے۔ عبدالقادر ملا کی میت ان کے اہلِ خانہ کے حوالے نہیں کی گئی اور نہ ہی اہلیہ، بیٹا، بیٹی یا گھر کے کسی بھی فرد کو ان کا چہرہ دکھایا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مصر کے اخوان کی تاریخ دوہرائی جارہی ہے۔ عبدالقادر ملا کے اہلِ خانہ کو پولیس نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ ریپڈ ایکشن بٹالین اور نیم فوجی دستے نے میت کو کفن میں لپیٹا اور 11بج کر 14 منٹ پر خود ہی اسے عبدالقادر ملا کے آبائی شہر فرید پور کے گاؤں صدر پور لے گئے۔ رات سوا تین بجے صدر پور پہنچنے کے بعد عبدالقادر ملا کے بھائی معین الدین ملا کو جگایا۔ گورکن پولیس کے حکم پر پہلے ہی قبر کھود چکا تھا۔ تیپا کھولہ کی جامع مسجد کے امام کو گھر سے اٹھا کر لایا گیا۔ مسجد کے قریب واقع چند رہائشی لوگوں کو بھی اٹھایاگیا۔ سوا چار بجے سیکورٹی کے حصار میں عبدالقادر ملا کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ چاروں جانب بوٹ والے اس طرح کھڑے تھے جیسے عبدالقادر ملا ابھی زندہ ہوجائیں گے۔ معین الدین ملا کو اپنے بھائی کی میت بھی لحد میں اتارنے نہیں دی گئی۔ پولیس اہلکاروں نے خود ہی میت کو قبر میں اتارا۔
ایک مکتی باہنی کو رحم آگیا اور اس نے چند سیکنڈ کے لیے شہید کا چہرہ دکھایا اور پھر تدفین کردی۔ نماز فجر سے پہلے ہی تدفین کا عمل مکمل ہوگیا۔ گاؤں کی اکثریت کو دن چڑھنے پر خبر ملی کہ ان کے ہر دلعزیز عبدالقادر ملا کی تدفین بھی ہوچکی۔ جماعت اسلامی کے قائدین اور قریبی رشتہ داروں سمیت کار کنوں اور گائوں کے لوگوں کی بڑی تعداد بھی نماز جنازہ میں شرکت سے رہ گئی۔ وہ رات جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں پر بہت بھاری گزری۔ اس رات سیکڑوں افراد لاپتا کردیے گئے۔ راجشاہی، کاکس بازار، نواکھالی، سراج گنج، فرید پور، راج باڑی اور دیگر مقامات پر لوٹ مار شروع کردی گئی۔اسی رات سیکورٹی فورسز نے کمبائنڈ ملٹری اسپتال سے سابق صدر اور جاتیو پارٹی کے چیئرمین جنرل (ر) حسین محمد ارشاد کو گرفتار کرلیا۔ جاتیو پارٹی جو حکومت کی اتحادی تھی، اس نے 5 جنوری کو ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر کا کہنا ہے کہ جنرل ارشاد کو عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ یہ واقعہ ٹھیک اُس وقت پیش آیا جب چند گھنٹے قبل جنرل ارشاد کی اہلیہ روشن ارشاد، انیس الاسلام محمد اور زین العابدین ببلو نے گونو بھابھن میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے ملاقات کی۔ جاتیو پارٹی کی مجلس منتظمہ کے رکن قاضی ظفر احمد کا کہنا تھا کہ حسین محمد ارشاد نے پارٹی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب ان کی اہلیہ روشن ارشاد جاتیو پارٹی کی قائم مقام چیئرپرسن ہیں۔ مگر پریس کانفرنس میں جب جاتیو پارٹی کے سیکریٹری جنرل اے بی ایم راہل امین حوالدار سے سوال کیا گیا تو وہ بھڑک اٹھے اور صحافیوں سے کہا کہ وہ روشن ارشاد سے یہ سوال کریں، وہی اس کا جواب دیں گی۔ اے بی ایم راہل حوالدار اس بات پر مطمئن تھے کہ جنرل ارشاد ابھی زندہ ہیں۔
13دسمبر
عبدالقادر ملا کے خون سے بنگلہ دیش جل اٹھا۔ رات کے اندھیرے میں عبدالقادر ملاکی تدفین حکومت کو مہنگی پڑگئی۔ حسینہ واجد چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی نماز جنازہ کا اعلان نہ کرے مگر اگلے دن بنگلہ دیش کی ہر سڑک پر عوام کا ہجوم تھا۔ سیکورٹی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کی اپیل پر ملک کے ہر ضلع اور تحصیل میں عبدالقادر ملا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ ہر شخص اس بات پر تاسف کا اظہار کررہا تھا کہ:
اے راہروانِ راہِ وفا ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں
تم جان پہ اپنی کھیل گئے اور ہم سے ہوئی تاخیر بہت
مقبوضہ کشمیر، سعودی عرب، ترکی، لندن، حتیٰ کہ بھارت میں بھی شہید عبدالقادر ملا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جمعہ کے بعد جگہ جگہ مظاہرے شروع ہوگئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشرکرنے کے بجائے ان پر براہِ راست آنسوگیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی جس سے بنگلہ دیش بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم حسینہ واجد مستعفی ہوجائے۔ پولیس نے متعدد مقامات پر مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے سیکورٹی فورسز کی مدد سے منظم انداز میں حملے کیے۔ لوٹ مار اور تشدد سے بچوں اور خواتین سمیت 20 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے رہنما و کارکنان بھی شامل تھے۔ نیم فوجی دستوں اور بارڈر گارڈ نے مختلف مقامات پر کریک ڈاؤن کے دوران 700 افراد کو گرفتار کیا۔ مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیں۔ شرپسندوں نے اس آڑ میں متعدد ریلوے اسٹیشنوں، تجارتی پلازوں اور سیکڑوں گاڑیوں کو آگ لگادی۔ اس صورت حال میں دارالحکومت ڈھاکا عملاً ملک کے دیگر شہروں سے کٹ کر رہ گیا جہاں عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ سیکورٹی فورسز کی مدد سے اسلام پسندوں کو کچلنے کا منصوبہ بنارہی تھی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے چارنکاتی پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے ہفتہ کو یوم دعا، اتوار کو ملک گیر ہڑتال اور پیر 16دسمبر کو یوم سقوط ڈھاکا کے حوالے سے مذاکراتی جلسہ کا اعلان کیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بنگلہ دیش میں انصاف تماشا بن گیا ہے۔ حکومت مخالفین کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارنے کے درپے ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت متنازع جنگی جرائم ٹریبونل کو سیاست کی بنیاد پر انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کررہی ہے۔ جرمن میڈیا نے عبدالقادرملا پرچلائے گئے مقدمے کے معیارکو ہی مشکوک قرار دیا اور گواہوں کے بیانات پر سوالات اٹھائے کہ آخر کس طرح 40 سال بعد کسی گواہ کے بیان کو سچ تصور کیا جا سکتا ہے؟ سب سے زیادہ تنقید اس مقدمے میں قانونی اور سیاسی عناصر کے شامل ہونے پر کی گئی۔
14دسمبر
حسینہ واجد حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود احتجاج روکنے میں ناکام رہی۔ ہفتہ کو بھی ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ ایک جانب سیکورٹی فورسز حکومت مخالفین پر تشدد کررہی تھیں تو دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد مبینہ جنگی جرائم میں قید مزید افراد کو پھانسی دینے کا اعلان کررہی تھی۔71ء میں پاک بھارت جنگ میں مارے جانے والے مکتی باہنی کی یاد میں تقریب سے خطاب میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ وہ بیرون ملک سے بھی ایسے مجرموں کو واپس لائے گی۔ اُس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ خانہ جنگی کی صورت حال سے نہیں ڈرتی۔ ایک کو انجام تک پہنچایا ہے دیگر کا بھی یہی حال کریں گے، مظاہرین باز نہ آئے تو ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ حسینہ واجد نے اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرنے والی جماعت بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ مبینہ جنگی مجرموں کو تحفظ دینے سے باز رہیں۔ مگر اگلے ہی لمحے اس نے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اس نے خالدہ ضیاء کو پیشکش کی کہ اگر بی این پی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے جنگی جرائم ٹریبونل کو متنازع کہنا چھوڑ دے تو بعض نشستوں پر عوامی لیگ اپنے امیدوار بٹھا لے گی۔ حسینہ واجدنے نشاندہی کی کہ حکمراں جماعت اپوزیشن کے لیے متعدد نشستیں پہلے ہی خالی چھوڑ چکی ہے، اگر باضابطہ بات ہوجائے تو تناسب کے اعتبار سے حکومت مزید نشستوں سے بھی دست بردار ہونے کو تیار ہے۔ حسینہ واجد کا یہ خطاب گویا حکم تھا کہ اب نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا دلاور حسین سعیدی (جو مفسر قرآن بھی ہیں)، سیکریٹر ی جنرل علی احسن مجاہد، جوائنٹ سیکریٹری جنرل محمد قمر الزماں اور بی این پی کے صلاح الدین قادر چودھری کی پھانسی کی تیاری شروع کردی جائے۔ حسینہ واجد کی اس تقریر نے گویا عوامی لیگ کے کارکنوں اور مکتی باہنیوں پر مشتمل  ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی)کو لائسنس ٹو کل فراہم کردیا۔ آر اے بی کے کمانڈر نے سرکاری غنڈوں کے ساتھ لکشمی پور کے علاقے کمپنی گنج میں جماعت اسلامی کے نائب امیر کے گھر پر دھاوا بول دیا، توڑ پھوڑ کی اور کہا کہ بیٹے کو حوالے کرو۔ بیٹا نہ ملنے پر وہ نائب امیر ضلع ڈاکٹر فیض احمد کو چھت پر لے گیا، انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی مار کر لاش چھت سے پھینک دی (ڈاکٹر فیض احمد نے 1978ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا تھا)۔ اس پر جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن گھروں سے نکل آئے۔ پولیس نے ان پر براہِ راست گولی چلادی۔ 6 طالب علم شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ تمام کا تعلق جماعت کی اسلامی چھاترو شبر سے تھا اور ان کی عمریں 21 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔ ڈھاکا میں بارڈر گارڈ نے اسلامی چھاترو شبر کے 3کارکنوں کو شدید تشدد کرکے شہید کردیا اور ان کی لاشیں جلادیں۔ رام گنج میں مشتعل مظاہرین نے حکمراں جماعت عوامی لیگ کے رکن پارلیمان اسد الزمان نور کی ریلی پر حملہ کرکے 3 افراد مار دیے۔ پبنہ میں پیٹرول بم پھینک کر وزیر داخلہ شمس الحق کا گھر نذر آتش کردیا گیا۔ راج شاہی، باریسال، نواکھالی، کھلنا اور چٹاگانگ میں بھی سرکاری غنڈوں نے جماعت اسلامی، اسلامی چھاترو شبر اور ان کے حامیوں پر حملے شروع کردیے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 71ء کی طرز پر حملے کیے جارہے ہیں۔ لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان چلے جاؤ ورنہ 71ء کی طرح قتل کردیا جائے گا۔ اس صورت حال پر ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیکورٹی ماہر ایم شاہد الزماں نے خبردار کیا کہ ملک بھر میں چن چن کر مارنے کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ حسینہ واجد کے فیصلے بنگلہ دیش کو بھی افغانستان اور فلسطین جیسی جنگ کی آگ میں جھونک دیں گے۔
15دسمبر
جماعت اسلامی کی اپیل پر اتوار کو ملک بھر میں ہڑتال کی گئی۔ حسینہ واجد حکومت تمام تر مظالم کے باوجود احتجاج کو کچلنے میں ناکام رہی۔ سیکورٹی اہلکاروں اور جماعت کے کارکنوں میں گلی گلی جھڑپیں ہوئیں۔ پٹگرام میں جماعت کے کارکنوں پر سیکورٹی فورسز نے فائر کھول دیا جس سے 3 کارکن شہید ہوگئے۔ ان میں اسلامی چھاترو شبر کے علاقائی رہنما بھی شامل تھے۔ پٹگرام میں حکمراں جماعت عوامی لیگ کے حامیوں کے 20 گھروں کو آگ لگادی گئی۔ جماعت کے مظاہروں پر پولیس کی فائرنگ سے کمپنی گنج میں 3، رام گنج میں 2 اور نارائن گنج و لکشمی پور میں ایک ایک کارکن شہید ہوا۔ اسلام کے نام لیواؤں کے لیے ہر گزرتا لمحہ ایک نئی آزمائش لے کر آرہا تھا۔ 15دسمبر کو عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری محبوب العالم حنیف نے حسینہ واجد کی آشیر واد سے نئی مکتی باہنی بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان کا ساتھ دینے والوں سے بدلہ لیں گے۔ عوامی لیگ ڈھاکا میٹروپولیٹن یونٹ کے سیکریٹری جنرل محفوظ الحسین چودھری مایا نے کہا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے کارکن جہاں نظر آئیں انہیں پکڑ کر وہیں ماردیں۔ ہمارے لیڈروں نے کچھ نہیں کیا، اب ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری جنرل جہانگیر کبیر نانک نے واضح طور پر کہاکہ وزیراعظم حسینہ واجد نے ہدایت دی ہے کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے مظاہرین کو اپنے اپنے علاقوں میں طاقت سے کچل دیا دیں، احتجاج کرنے والوں پر ٹوٹ پڑیں، انہیں چن چن کر نشانہ بنائیں۔ بنگلا بندھو ایونیو میں ہونے والے اس اجلاس میں نائب وزیر قانون قمر الاسلام خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ انہوں نے پارٹی کے اس اقدام کی حمایت کردی۔ قمرالاسلام نے کہا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں، جماعت اسلامی پاکستان اور آئی ایس آئی کی ایجنٹ ہے، بدلہ لینے کا وقت آپہنچا ہے، 16دسمبر یوم فتح ہے، جماعت اسلامی کا نام و نشان مٹادیں گے، جب تک جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کو قابو نہیں کرلیا جاتا بنگلہ دیش کا وجود خطرے میں رہے گا، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو افغانستان بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں اور مکتی باہنیوں کو یقین دلایا کہ جماعت اسلامی کے خلاف لاقانونیت کا مظاہرہ کرنے پر قانون کے رکھوالے آنکھیں بند کرلیں گے، کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
ایک جانب عوامی لیگ کے لیڈر اشتعال انگیز تقاریر کررہے تھے تو دوسری جانب عوامی لیگ کی سربراہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد ایک بار پھر خالدہ ضیاء کو رام کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ دارالحکومت کے کرش بید آڈیٹوریم سے خطاب میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ میں خالدہ کو واک اوور دینے کو تیار ہوں۔ میں ایک بار پھر انہیں پیش کش کرتی ہوں کہ اگر وہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیں تو وہ جو وزارت مانگیں گی دے دوں گی۔ حسینہ واجد کے خطاب کے وقت ڈھاکا کی مرکزی شاہراہ پر ہزاروں تاجر سفید پرچم اٹھائے مظاہرہ کررہے تھے۔ امن واک میں شریک تاجروں کا مطالبہ تھا کہ حکومت محاذ آرائی کی سیاست ترک کرے کیونکہ قتل کی سیاست نے معیشت کی چولیں ہلادی ہیں۔ مگر حسینہ واجد کو اپنے ملک کی معیشت سے زیادہ بھارت کے اُن ہزاروں ٹرکوں کی فکر تھی جو ان مظاہروں کے دوران راج شاہی میں پھنس کر رہ گئے، جس نے دہلی سرکار کی نیندیں حرام کردی تھیں، کیونکہ چند دنوں میں بھارت کو ایک ارب سے زائد کا نقصان ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجیب کی بیٹی نے ہدایت کی کہ ان ٹرکوں کو بہرصورت بھارت پہنچایا جائے، اور حکم دیا کہ راستے میں آنے والے مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔
ایک جانب اپوزیشن کے خلاف سرکاری مظالم اپنے عروج پر تھے تو دوسری جانب محصورینِ پاکستان جو آج تک صرف اور صر ف پاکستان کے نام پر جی رہے ہیں اور ببانگ دہل خود کو ''پاکستانی'' کہتے ہیں، پر نسل کشی کی ایک نئی تلوار لٹکنے لگی۔ محصورین کے حوالے سے ایک انکشاف یہ ہوا کہ بی ڈی نیوز24 کی رپورٹ کے مطابق11مہینوں کے دوران محصورین کے کیمپوں سے 230 لڑکیاں اغوا کی جاچکی ہیں۔ بنگالی دلال نوکری دلانے کا جھانسہ دے کر انہیں لے گئے اور بھارت میں جسم فروش مافیا کو فروخت کردیا۔
16دسمبر
پیر 16دسمبر عوامی لیگ اور مکتی باہنیوں کے لیے جشن کا دن تھا۔ مگر حکومت کو اُس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب یورپی یونین نے ڈھاکا میں بنگلہ دیش کے یوم آزادی کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا۔ یورپی یونین کے آفس سے بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کو جاری بیان میں کہا گیا کہ یورپی یونین کے نمائندوں کے اجلاس اور بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال پر رپورٹ کی تیاری کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کی جاسکتی۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد ملک بھر میں حکومت کی سرپرستی میں قتل عام کے خلاف جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے تین روزہ ملک گیر شٹرڈاؤن پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا۔ 18جماعتی اتحاد کی سرکردہ جماعت بی این پی نے بھی 72گھنٹے کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی۔ مگر ان کا محور کچھ اور تھا۔ خالدہ ضیاء کی زیر صدارت اجلاس کے بعد بی این پی کے سینئر رہنما نذرالاسلام خان نے میڈیا کے ذریعے عوام سے اپیل کی کہ وہ منگل17دسمبر سے جمعہ 20 دسمبر تک ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کو کامیاب بنائیں۔آمد ورفت کے تمام ذرائع بند کردیں۔ خالدہ ضیاء کا کہنا تھا کہ اگر عوامی لیگ کی اتحادی حکومت غیر جانبدار عبوری حکومت کے قیام پر رضامند ہوجاتی ہے تو پہیہ جام ہڑتال کوختم کردیا جائے گا۔ وزیر داخلہ شمس الحق توکو اور عوامی لیگ کے رہنما محب اللہ عالم حنیف نے خبردار کیا کہ انتخابات کے خلاف کسی قسم کے احتجاج یا تشدد کو انارکی تصور کیا جائے گا۔
دوسری جانب ریپڈ بٹالین کریک ڈاؤن میں مصروف تھی۔ جماعت اسلامی کے مضبوط مرکز ست خیرہ میں اسلامی چھاترو شبر کے مقامی رہنما سمیت 5کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ 30 زخمی ہوئے۔ جاتیو پریس کلب ڈھاکا سے چھاترو شبر کے 13کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ عوامی لیگ کے حامیوں نے امیر جماعت اسلامی ضلع ست خیرہ عبدالخالق اور ست خیرہ مغربی یونٹ کے امیر مولانا عبدالرؤف کے گھروں پر بلڈوزر چڑھا دیے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اے ایچ ایم حامد الرحمن آزاد نے اقلیتی برادری کے گھروں اور ان کے مذہبی مقامات پر حملے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے، چند مقامی روزنامے ڈیلی اسٹار، دی ڈیلی پراتھوم ایلو، دی ڈیلی اتفاق اور ڈیلی آمادرشومو ان کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں۔
مگر پاکستان میں سقوط میڈیا ہوچکا تھا۔ سراج الدولہ کی قوم تو مسلم قومیت کو زندہ کررہی تھی لیکن پاکستان میں سکوتِ مرگ طاری تھا۔ یہ سب کچھ حیرت انگیز یا عجیب تو نہیں۔ اپنے خون و عمل سے نظریے کی آبیاری کرنے والے اور اس کے لیے قربانی دینے والے ہی نظریے کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہاں تو زبانیں گنگ ہیں اور قلم زنگ آلود
17دسمبر
منگل17دسمبر کو  پاکستان کے لیے ایک پیغام تھا۔ ڈھاکا میں بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو عبدالقادر ملاکی پھانسی کے خلاف قرارداد پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف یہ قرارداد واپس لے بلکہ71ء میں اپنے کردار پر معافی بھی مانگے۔ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی عبدالقادر ملا کے حوالے سے اپنا بیان واپس لیں۔ بی ڈی نیوز 24 نے سرخی لگائی''Pakistan asked to shut up''۔
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ میں پاکستانی ہائی کمشنر میر افراسیاب قریشی قزلباش کو طلب کیا گیا اور انہیں احتجاجی یادداشت پیش کی گئی۔ اس دوران گونوجاگرن مانچہ(مکتی باہنی) کے ہزاروں افراد نے پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب مارچ کیا۔ اس معاملے میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کھل کر سامنے آگئی۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی پر کسی سطح پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کرنے والی بی این پی پاکستان کے خلاف احتجاج میں عوامی لیگ کی ہمنوا بن گئی۔ بی این پی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن نذرالاسلام نے کہا کہ ڈھاکا کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں عبدالقادر ملا کی حمایت میں قرارداد کے خلاف احتجاج ضرورکرنا چاہیے مگر حکومت کو سوچنا ہوگا کہ آخر کسی کو بنگلہ دیش کے معاملات پر اپنی اسمبلی میں قرارداد پاس کرنے کی جرأت کیونکر ہوئی؟ اس کی وجہ ہے کہ حکومت نے بنگلہ دیشی عوام کو تقسیم کرکے ملک کو کمزور کردیا ہے۔ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ سے بی این پی کے رہنما نذر الاسلام کی تقریر کے دوران بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء گلشن آفس میں پریس کانفرنس کررہی تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن جمہوریت اور انتخابات سے کھلواڑ بند کردیں (یہ بات واضح رہے کہ جس دن عبدالقادر ملا کو تختہ دار پر چڑھایا گیا اس روز خالدہ ضیاء حکومتی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے بھارت کے اہم دورے پر تھیں)۔ مگر حسینہ واجد حکومت تو اپنی اتحادی جماعت جاتیو پارٹی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ منگل کو جب ہائی کورٹ نے حکومت کو لیگل نوٹس جاری کیا کہ جنرل ارشاد کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے کیونکہ کسی الزام یا عدالتی حکم کے بغیر انہیں قید میں نہیں رکھا جاسکتا، اس کے چند گھنٹے بعد بی ٹی نیوز24 نے خبر نشر کی کہ حکومت نے حسین محد ارشاد سے کہا ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں اور عام انتخابات تک وہیں رہیں۔ حکومت نے انہیں دو مقامات سنگاپور یا کوالالمپور میں سے کسی ایک جگہ کے انتخاب کا اختیار دیا۔ حکومتِ بنگلہ دیش نے جنرل ارشاد کے خصوصی مشیر بوبی حجاج کو پہلے ہی ملک بدر کردیا تھا۔ بوبی نے لندن پہنچنے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ہفتہ کی صبح سیکورٹی اہلکار ان کے دفتر آئے اور کہا کہ اپنی ریسرچ بند کرو اور اس ملک سے فوراً چلے جاؤ۔ تھوڑی دیر بعد ریپڈ ایکشن بٹالین کے اہلکاروں نے مجھے گرفتار کرکے دفتر سیل کردیا اور مجبور کیا کہ حسین محمد ارشاد کی طرف سے جاری بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرو۔ پھر مجھے ملک بدر کردیا گیا۔ حسینہ واجد حکومت حسین محمد ارشاد کی جاتیو پارٹی کو زبردستی الیکشن میں شریک کرانا چاہتی ہے، اس لیے انہیں تندرست ہونے کے باوجود سی ایم ایچ اسپتال میں زبردستی داخل کرادیا گیا تاکہ رابطے کاٹے جاسکیں۔ 15دسمبر کو عوامی لیگ کے لیڈروں نے جس مہم کا اعلان کیا تھا 17دسمبر کی رات اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے جماعت اسلامی کے مضبوط گڑھ ست خیرہ میں مشترکہ آپریشن شروع کردیا۔ بنگلہ دیش کے آئی جی پولیس حسن محمود خوندکر نے ریپڈ ایکشن بٹالین اور بارڈر گارڈ کے ساتھ 15اضلاع میں مشترکہ آپریشن کا اعلان کیا۔ ان میں بوگرہ، جمال پور، راج شاہی، غازی پور، چٹاگانگ، سراج گنج، جے پو ر ہارٹ، چاند پور، نواکھالی، کومیلا، برہمن باڑہیہ، بگر ہاٹ، مان سنگھ گنج اور چھپینا باغ گنج شامل ہیں۔ حسن محمود کا کہنا تھا کہ پولیس 49 اضلاع کو مانیٹر کررہی ہے۔ اس روز ڈھاکا سمیت کئی شہروں میں پہیہ جام ہڑتال رہی۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے پندرہ گھر جلادیے۔ صدر کے علاقے میں اسلامی چھاترو شبر کے پانچ کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال پر شدید تشویش ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت سیکورٹی فورسز کو حکم دے کہ وہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال بند کردیں۔ ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے جو پُر تشدد واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کرسکے۔ہیومن رائٹس واچ کی سادہ لوحی پر یہی کہا جاسکتا ہے :
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
میرے حق میں فیصلہ کیا دے گا
عبدالقادر ملا کو پھانسی دے کر حسینہ واجد نے اسلام پسندوں کی ایک توانا آواز کو خاموش کردیا۔ عبدالقادر ملا صرف ایک استاد یا سیاستدان ہی نہیں بلکہ ماہر سفارتکار اور کہنہ مشق صحافی بھی تھے۔ ان کے عدالتی قتل نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بیرونی دنیا سے تعلق کو منقطع کردیا ہے۔ اب تک جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنان، رہنماؤں اور حامیوں سمیت درجنوں افراد شہید، بیسیوں زخمی اور ہزاروں لاپتا کردیے گئے ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے کے سروے کے مطابق بنگلہ دیش کا 81 فیصد علاقہ احتجاج کی زد میں ہے۔ 51 فیصد اضلاع میں کسی بھی وقت آگ بھڑک سکتی ہے۔ 90 فیصد عوام حسینہ واجد سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کیا ہورہا ہے، اور کیا ہونے والا ہے؟ یہ سب کچھ ہم اسی میڈیا سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں جو کنٹرولڈ ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے کچھ خبریں مل جاتی ہیں۔
لیکن بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا پر بھی سنسر لگانے والی ہے۔ بھارت سے آئی ٹی کے ماہرین بلائے گئے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ظلم کی سیاہ رات جتنی گہری ہوگی، صبح اتنا ہی اجالا اور روشنی ہوگا۔ حبس جتنا بڑھے گا انقلاب کی بادِ صبا اتنی ہی پُرکیف ہوگی۔

میرے بعد میرے بیٹو! یہ جہاد کرتے رہنا
عبدالقادر ملا شہید کا آخری پیغام
میں تمہارا سرپرست ہوں۔ اگر حکومت مجھے غیر قانونی طریقے سے قتل کرادے یا پھانسی دے دے تو یہ ایک شہید کی موت ہوگی۔ شہادت… جس کی مجھے آرزو ہے۔ شہادت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ اگر میرا رب مجھے شہادت عطا کرتا ہے تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی۔ یہ پروردگار کی جانب سے میرے لیے سب سے بہترین تحفہ ہوگا۔ میرے بعد اللہ پاک تمہارا نگہبان ہے اور وہی بہترین نگہبانی کرنے والا ہے۔
میں بالکل بے گناہ اور معصوم ہوں جس طرح آسمان پر چمکنے والے ستارے۔ یہ مجھے اس لیے سولی چڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے تحریک چلا رہا ہوں۔ میرے سولی چڑھنے سے اگر اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہوتی ہے تو اسے میں باعثِ سعادت سمجھوں گا۔ میرے خون کا بدلہ یہی ہے کہ بنگلہ دیش کے اندر قانونی اور آئینی ذرائع سے اسلام کو پھیلانے اور اللہ کے دین کو سربلند رکھنے کی جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔
میں اپنی ذات کے لیے بالکل فکرمند نہیں۔ مجھے فکر ہے تو اس قوم کی… اسلامی تحریک کی۔ یاد رکھو میں نے زندگی میں ایسی کسی غلطی یا جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا جس کا یہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی اسلامی تحریک کے لیے وقف کی۔ میں لاقانونیت کے سامنے کبھی سر نہیں جھکا سکتا۔ میرا سر صرف ایک اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہی جھکتا ہے۔ میرے لیے کوئی آنسو نہ بہائے۔ میرے لیے کسی بھی اتھارٹی سے رحم کی اپیل نہ کرنا، کیونکہ زندگی اور موت دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ میں کسی ایک فرد کے فیصلے کی وجہ سے سولی نہیں چڑھایا جارہا بلکہ پروردگار نے میری شہادت کی تاریخ اور وقت مقرر کردیا ہے۔ میں ہر حال میں اپنے رب کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کرتا ہوں… پریشان نہ ہو اور غم نہ کرو۔ تم سب صبر کرنا اور ہمت سے کام لینا، کیونکہ صبر کرنے والوں پر اللہ رب العز ت کی خاص رحمت ہوتی ہے۔
اسلامی نظام کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھنا۔ ہمیں صرف آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ ان شا اللہ ہم جنت میں ہمیشہ اکٹھے رہیں گے۔ میں دعائے خیر کرتا ہوں اُن ساتھیوں کے لیے جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔ میری شہادت کے بعد کارکن پُرامن رہیں۔ تشدد نہیں ہونا چاہیے۔

تاریخ معاف نہیں کرے گی
''عبدالقادر کو پھانسی تاریخی غلطی ہوگی جس پر تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ آپ کو چاہئے کہ جماعت اسلامی کے رہنما کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیں۔ میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہوں۔ کیونکہ عدالتی تحقیقات اور فیصلے کا یہ انداز انصاف کا خاتمہ کردے گا۔ بنگلہ دیش کے عوام اس وقت کسی سیاسی لڑائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں دوسری قوتیں میدان میں کود پڑیں گی اور یہ جمہوریت کی موت ہوگی۔''
(ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان کی، پھانسی سے چند گھنٹے قبل حسینہ واجد سے ٹیلی فون پر گفتگو)
''ہم عبدالقادر مُلاّ کی پھانسی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل پر اللہ کی رحمت ہمیشہ سایہ فگن رہے۔ انصاف، انسانی حقوق اور قانون سب کچھ پامال کردیا گیا۔ تاریخ عبدالقادر مُلاّ کو پھانسی دینے والوں کو کبھی یاد نہیں رکھے گی جس طرح ترکی میں سابق وزیراعظم عدنان مندریس، سابق وزیر خارجہ فاتین روستو اور سابق وزیر خزانہ حسن پولتکان کو پھانسی دینے والوں کا آج کوئی نام لیوا نہیں ہے۔''
(جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی کے بعد ترکی کے نائب وزیراعظم بکر بوزدرگ کا بیان

 

SYED ABDUL BAIS

 

"I can not teach anybody anything; I can only make them think."

Socrates  

 

No comments:

Post a Comment

PAID CONTENT