Monday, December 23, 2013

[Pindi-Islamabad:94543] Inspirational & Motivational

یمامہ کا سردار "ثمامہ بن اثال" اسلام اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا دشمن تھا جس نے قسم کھا رکھی تھی کہ معاذاللہ جب بھی اسے موقع ملا وہ اللہ کے رسول کو قتل کر دے گا۔ پھر اس کی قسمت کہ وہ ایک دن مدینہ کے مضافات سے گذرتے ہوئے مسلمان سپاہیوں کے ہاتھ آگیا۔ انہوں نے اسے گرفتار کرکے مسجد کے ستون (ابولبابہ) کے ساتھ باندھ دیا۔ وہ بڑا امیر آدمی تھا۔ بڑے قبیلے کا سردار تھا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی اسے گرفتار کر سکتا ہے۔ اس لیۓ ستون سے بندھے ہوۓ اس سردار سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے؟ آخر میرے رب نے مجھے تم پر قابو دے ہی دیا نا ثمامہ نہایت تکبر سے جواب دیتا ہے" اگر مجھے قتل کرو گے تو میرے قتل کا بدلہ لیا جاۓ گا۔ کیونکہ میں کوئ معمولی آدمی نہیں ہوں۔ اور اگر احسان کروگے تو ایسے شخص کے ساتھ احسان کروگے جو شکر گذاری کے ساتھ اس کا بدلہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔ ہاں! اگر مال و دولت لینا چاہتے ہو تو بات کرو، جتنا چاہو دیا جا سکتا ہے۔ پھر ہمیشہ کی طرح مسکراتے رہنے والی شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا کہ دودھ سے اس کی ضیافت کرو۔ دوسرے دن پھر اسی طرح کا مکالمہ ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ثمامہ کیسے ہو؟ اس نے پھر کہا ؛" اے محمد خیریت سے ہوں۔ اگر قتل کروگے تو بدلہ لیا جاۓ گا، اگر معاف کردوگے تو شکریہ ادا کریں گے اور اگر مال چاہتے ہو تو بات کرو۔
----------------------------------------
تیسرا دن آتا ہے، آج ثمامہ کے بارے میں فیصلہ ہونا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا "ثمامہ کیسے ہو؟ اس نے حسب سابق کہا کہ خیر ہے۔ اور ساتھ ہی اپنے گذشتہ الفاظ دھرا دیۓ۔ جن میں سے نے بڑے فخر سے اپنے قبیلے کا ذکر کیا اپنے مال و دولت کی کثرت کا اظہار کیا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی۔ اب صحابہ کرام منتظر تھے کہ اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے۔ رحمت للعالمین نے فرمایا کہ اس کی رسیاں کھول دو پھر فرمایا کہ جاؤ ثمامہ میں تمہیں بغیر کسی شرط کے آزاد کرتا ہوں۔ 
ثمامہ نے اپنی سواری پکڑی اور مدینے سے باہر کی طرف رخ کرلیا۔ رسول اللہ کے لطف و کرم سے وہ اپنی جان سلامت لے کر نکل تو آیا۔ مگر وہ اپنے دل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر محبت سے نہ بچا سکا ۔ مسجد نبوی سے باہر نکلتے وقت اسے بے اختیار خیال آیا کہ اتنا برگزیدہ اور ان جیسا بلند حوصلہ انسان تو میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ میرے الفاظ میں کتنی شدت اور حدت تھی مگر اس کے باوجود ان کا تحمل ان کے غصہ پر غالب رہا اور انہوں نے مجھے رہا کردیا۔
سیرت نگاروں نے لکھا کہ وہ مدینہ کے نواحی گاؤں میں گیا۔ کنویں پر غسل کیا، صاف کپڑے پہنے پھر اس کے قدم خود بخود مسبد نبوی کی طرف بڑھنے لگے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے " ثمامہ میں نے تو تمہیں چھوڑ دیا تھا۔ پھر کیسے آنا ہوا؟
اس نے جواب دیا کہ آپ کا رہا کرنا بھی خوب رہا کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چھوڑا تو ہے مگر ہمیشہ کے لیۓ اپنا بنا کر۔ اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی غلام ہوں۔ میری تمنا ہے کہ مجھے کلمہ پڑھایۓ اور اپنے جان نثاروں میں شامل کرلیجیۓ۔
یوں ایک سخت دشمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے متاثر ہوکر آپ کے غلاموں میں شامل ہوگی
Regards
Malik

I am just a mail away, not a mile away!

if my emails are irritating you and you are not interesting to get - plz reply with "unsubscribe" .

No comments:

Post a Comment

PAID CONTENT