>> بسم اللہ الرحمن الرحیم>> ہیں****<http://www.hajisahb.com/blog/?p=1131>
>>
>> *السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
>>
>> زندگی کے امتحان بھی تو ایسے ہی ہوتے
>>
>> کسی سکول میں ایک استاد ہوتا تھا۔ بہت ہی لائق اور محنتی، پڑھانے کو فرض
>> سمجھنے اور پڑھائی کے پیشے کا حق ادا کرنے والا۔****
>>
>> ****
>>
>>
>>
>> ایک بار سہ ماہی امتحانات کے دن قریب آنے پر اُسے امتحان لینے کا ایک نیا
>> طریقہ سوجھا۔ ****
>>
>> روایتی تحریری یا زبانی امتحانات جیسے طریقوں سے سےہٹ کر ایک مختلف اور
>> اچھوتا طریقہ۔ ****
>>
>> ****
>>
>> امتحان والے دن اُس نے طلباء سے کہا وہ اپنے ساتھ تین مختلف قسم کے پرچے بنا
>> کر لایا ہے۔ ****
>>
>> جو ہر قسم کی ذہنی صلاحیتوں والے طلباء کے لئے مناسب اور موزوں ہیں۔ ****
>>
>> پہلی قسم کے پرچے اُن طلباء کیلئے ہیں جنہیں اپنی ذہانت، اپنی محنت اور اپنی
>> صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ ان پرچوں میں مشکل سوالات دیئے گئے ہیں۔ ****
>>
>> دوسرے قسم کے پرچوں میں درمیانہ قسم کے طلباء کیلئے عام قسم کے سوالات ہیں۔
>> درمیانہ ذہانت کے طلباء سے مراد ایسے طالبعلم جو پڑھتے تو ہیں مگر پڑھائی پر
>> اضافی توجہ دینے اور سخت محنت سے کتراتے ہوئے۔ صرف پاس ہوجانا ہی اُن کا
>> مطمع نظر ہوتا ہے۔ ****
>>
>> اور تیسری قسم کے پرچے ایسے طلباء کیلئے ہیں جو پڑھائی کے معاملے میں
>> انتہائی کمزور ہیں۔ اپنی لا پروائی یا دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ
>> مصروفیت کی وجہ سے وہ تعلیم کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور نا ہی وہ کسی قسم کے
>> سخت امتحانات یا مشکل قسم کے سوالات کیلئے ذہنی طور تیار ہیں۔ ****
>>
>> ****
>>
>> طالبعلموں نے اپنے اُستاد کی بات کو بہت ہی تعجب سے سنا۔ امتحان کیلئے اس قسم
>> کے پرچے بنائے جانا اُن کیلئے ایک ایسا انوکھا تجربہ تھا جس سے انہیں اپنی
>> ساری تعلیمی زندگی میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پرچہ شروع ہونے کی
>> گھنٹی بجتے ہی سب طلباء اپنی اپنی پسند کے پرچے اُٹھانے کیلئے لپکے تو
>> صورتحال
>> کچھ اس طرح کی سامنے آئی کہ:****
>>
>> چند ایک طالبعلم ہی ایسے تھے جنہوں نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھانا پسند
>> کیئے تھے۔ اور جتنے ایک طلباء نے مشکل پرچے اُٹھائے تھے اُن سے تھوڑے زیادہ
>> طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے لیئے تھے۔ جبکہ طلباء کی اکثریت نے آسان
>> سوالات والے پرچے لینا ہی پسند کیئے تھے۔ ****
>>
>> ****
>>
>> میں اپنی یہ کہانی پوری سنانے سے پہلے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر
>> آپ بھی ان طلباء میں شامل ہوتے تو آپ کس قسم کا پرچہ اُٹھانا پسند کرتے؟**
>> **
>>
>> ****
>>
>> امتحان شروع ہوا تو کئی ایک حیرت انگیز باتیں طلباء کے انتظار میں تھیں۔ جن
>> طلباء نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے
>> سوالات تو اتنے مشکل ہرگز نہیں تھے جتنے مشکل کے وہ توقع کر رہے تھے۔ ****
>>
>> جن طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے اُٹھائے تھے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکثر
>> سوالوں کے جوابات حل کر سکتے ہیں۔ دل میں تو یہ سوچ رہے تھے کہ کاش اُنہوں نے
>> مشکل سوالوں والے اُٹھائے ہوتے تو بھی وہ کئی سوالات حل کر ہی ڈالتے۔ ****
>>
>> حقیقی معنوں میں صدمہ اُن طلباء کو پہنچا تھا جو آسان سوالوں والے پرچے
>> اُٹھا
>> لائے تھے مگر حقیقت میں وہ سوالات اتنے آسان بھی نہیں جتنے آسان کی وہ توقع
>> کر رہے تھے۔ ****
>>
>> ****
>>
>> استاد خاموشی سے سب طلباء کو پرچے اُٹھا کر جاتے اور حل کرتے وقت اُن کے
>> چہروں پر آئے ہوئے تأثرات کو دیکھتا رہا۔ امتحان کا مقرر ہ وقت ختم ہونے پر
>> اُس نے سب سے پرچے اور جوابی کاپیاں جمع کر کے اپنے سامنے رکھیں اور
>> طلباء سے کہا کہ وہ ان پرچوں کے نمبر لگا کر ابھی سب کو نتیجہ سنا دے گا۔ ***
>> *
>>
>> ****
>>
>> طالبعلموں کو یہ بات تو کچھ زیادہ ہی عجیب لگی۔ چھٹی ہونے میں تھوڑی سی دیر
>> رہتے وقت میں اُستاد زیادہ سے سے زیادہ دو یا چار پرچے چیک کر سکتا تھا ،
>> ساری
>> جماعت کے پرچے چیک کرنا تو ناممکن ہی تھا۔ ****
>>
>> ****
>>
>> مزید حیرت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب اُستاد ہر طالبعلم کا حل کیا ہوا پرچہ
>> اُٹھاتا اور اُسے بغیر دیکھے اور پڑھے ، اُس طالبعلم کے اختیار کردہ
>> پہلی
>> ، دوسری یا تیسری قسم کے سوالات والے پرچے کے مطابق مخصوص نمبر لگا کر
>> واپس رکھ دیتا۔ طالبعلم اِس ساری صورتحال کو خاموشی مگر نہایت ہی حیرت سے
>> دیکھ رہے تھے مگر اُن کی یہ حیرت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔****
>>
>> ****
>>
>> استاد جیسے ہی نمبر لگانے سے فارغ ہوا تو اُس نے طلباء کو کئی ایک غیر
>> متوقع باتیں بتائیں۔ استاد نے اس اچھوتی قسم کے امتحان سے راز اُٹھاتے ہوئےجو
>> پہلی بات بتائی وہ یہ تھی کہ:****
>>
>> تینوں قسم کے پرچے حقیقت میں ایک جیسے ہی تھے، کسی میں بھی کوئی مختلف سوال
>> نہیں تھا۔ ****
>>
>> دوسرا راز یہ تھا کہ جن طلباء نے مشکل سوال سمجھ کر پرچے اُٹھائے تھے اُس نے
>> اُن طلباء کو اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا۔ ****
>>
>> جن طلباء نے دوسری قسم کے عام سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے اُن کو درمیانہ
>> قسم کے ہی نمبر دیئے گئے تھے۔ ****
>>
>> اور جن طلباء نے سوالوں کو آسان سمجھ کر اُٹھایا تھا ان کو سب سے کمتر اور
>> کمزور درجہ سے پاس کیا گیا تھا۔ ****
>>
>> ****
>>
>> اُستاد کی یہ باتیں سُن کر طالبعلموں کے منہ بن کر رہ گئے، اُنکے زیر لب شکوے
>> اب صرف بڑبڑاہٹ ہی نہیں بلکہ آواز بن کر اُستاد تک پہنچ رہے تھے۔ خاص طور پر
>> وہ طلباء جنہوں نے درمیانی قسم یا آسان سوالات والے پرچے لیئے تھے اُن سے یہ
>> بات ہضم نہیں ہو پا رہی تھی۔ انہوں نے تو باقاعدہ اُستاد سے اس بات کی وضاحت
>> ہی
>> مانگ لی۔ ****
>>
>> ****
>>
>> اُستاد نے اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:****
>>
>> اُس نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ ****
>>
>> اُس نے سب کو نمبر اُن کی اپنی اختیار کردہ حیثیت کے مطابق ہی تو دیئے ہیں۔
>> ****
>>
>> جو طالبعلم اپنی محنت پر بھروسہ اور صلاحیتوں پریقین رکھتا تھا اور اُس
>> نے مشکل سوالات والا پرچہ اُٹھایا تھا، اُس کا حق بنتا تھا کہ اُسے اُس کی
>> محنت
>> کا حق اعلیٰ درجے سے دیا جائے۔ ****
>>
>> جسے اپنی قابلیت پر شک اور اپنی صلاحیت کا اندازہ تھا کہ اُس نے نا تو دل
>> لگا کر پڑھا اور نا ہی سنجیدگی سے محنت کی ہوئی تھی، اُس نے درمیانہ قسم کے
>> پرچے اُٹھائے اور اُسے اُس کی قدرات کے مطابق ہی درمیانہ نمبر دے دیئے گئے
>> تھے۔ ****
>>
>> اور وہ کمزور طلباء جنہیں بخوبی پتہ تھا کہ وہ پڑھنے کے معاملے میں نکمے
>> ہیں، اپنے اسباق یاد کرنا تو دور کی بات، انہوں نے تو اپنا وقت پڑھائی سے
>> دور بھاگنے، کام چوری ، سستی اور لا پروائی میں گزارا ہوا تھا۔ تو ایسے
>> طلباء کو تو اُن کی صلاحیت کے مطابق ہی ضعیف ترین نمبروں سے پاس کیا گیا تھا۔
>> ****
>>
>> ****
>>
>> جی ہاں۔ ہماری زندگی بھی تو بالکل اسی طرح ہی ہے!****
>>
>> جس طرح ان طلباء نے اپنے لئے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق راستوں کا اختیار
>> کیا،
>> اُسی طرح ****
>>
>> آپ کو بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ زندگی ہر شخص کو اس کی اپنی تیاری اور
>> اُسکی قدرت و استطاعت کے مطابق ہی درجے، ترقیاں، اور اجرت و معاوضہ دیا
>> کرتی ہے۔ ****
>>
>> ****
>>
>> اسی طرح ہی دوسرے لوگ، خواہ وہ آپ کے اساتذہ ہوں یا آپکے اداروں کے
>> سربراہان و مالکان، حتیٰ کہ آپ کے دوست اور آپکے جاننے والے عزیز بھی،
>> ان میں سے کوئی بھی آپ کو آپ کے حق سے زیادہ نہیں دے گا۔ ****
>>
>> ****
>>
>> اگر آپ زندگی کی دوڑ میں اعلیٰ مراتب اور بلند درجوں کے خواہشمند ہیں، تو
>> پھر آپ کو بلا خوف اور پورے اعتماد کے ساتھ سخت امتحانات کو اختیار
>> کرنا پڑے گا۔ ****
>>
>> ****
>>
>> اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپکو سب سے کمتر اور ضعیف درجے کی کامیابی
>> چاہیئے
>> یا کہ اعلٰی درجوں والی؟
>>
>> APP konsa paper select kartay ab sab mushkal mat kehna???sachi sachi
>> batana?plz
>>
>> main nay pehlay hi mushkal select kiya tha sachi....
>>
>>
>> --
>>
>> Doob Jaa Ishq-E-Khuda Mein Sab Kuch Bhool Kar
>>
>> Kis Ne Paayi Hai Yeh Duniya Ki Mohabbat Jo Tu Paaye Ga..!!
>>
>>
>>
>> <<<<<<< sAd pAncHi >>>>>>>
Monday, August 15, 2011
Life Examination
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment