سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رھے تھے.. وہاں سے ایک چرواھے کا گزر ہوا.. ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اُسے کھانے کی دعوت دی..
چرواھے نے کہا.. " میں نے روزہ رکھا ھوا ھے.. "
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر کہا.. " اتنے شدت کی گرمی ھے اور تو نے روزہ رکھا ھوا ھے اور تم بکریاں بھی چرا رھے ھو.. "
پھر سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاھا اور کہا.. " کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ھمیں بیچ سکتے ھو..? ھم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ھو.. "
چرواھا بولا.. " یہ میری بکریاں نہیں ھیں.. یہ میرے مالک کی بکریاں ھیں.. "
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے.. " اپنے مالک سے کہنا کہ ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا.. "
چرواھا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ھوئے چل دیا.. "پھر اللہ کہاں ھے..? "
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بار بار چرواھے کی بات کو دھراتےجا رھے تھے کہ " پھر اللہ کہاں ھے پھر اللہ کہاں ھے " اور روتے جارھے تھے..
اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے.. چرواھے کے مالک کو ملے ' اُس سے بکریاں اور چرواھا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا.. اور بکریاں بھی اُسے دے دیں اور اُسے کہا..
" تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا.. )پھر اللہ کہاں ھے( اللہ سے دعا ھے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے.. "
الراوي : زيد بن أسلم المحدث : الألباني - المصدر : السلسلة الصحيحة - لصفحة أو الرقم : 7/
Regards
Malik
I am just a mail away, not a mile away!
if my emails are irritating you and you are not interesting to get - plz reply with "unsubscribe" .
Malik
I am just a mail away, not a mile away!
if my emails are irritating you and you are not interesting to get - plz reply with "unsubscribe" .
No comments:
Post a Comment